Thursday, June 10, 2010

قہوہ پیئوگے؟

قہوہ پیئوگے؟
(چراغ بہ کف/ خاورچودھری)
یہ مت سمجھیے گا کہ میں کسی''چائے ساز'' کمپنی میں ملازم ہوگیا ہوں اوراُس کی اشتہاری مہم کالموں کے ذریعے چلانے کاذمہ لے بیٹھا ہوں اور یہ خیال بھی دل میں مت لائیے گا کہ میں کسی حکیم بڑے صاحب کے مجرب نسخوں کی تشہیری مہم کا حصہ بن گیا ہوں اور یہ بھی دھیان میں رہے کہ میں قہوہ کے فوائد نہیں گنوانے جارہے ہوں۔میں تومحض یہ پوچھناچاہتا ہوں کہ اس گرم ترین موسم میں اگرآپ کے سامنے قہوہ کی پیش کش رکھی جائے توکیا قبول کرلیں گے؟ نہیں ناں! مگربہت سے ایسے ہیں جواس پیش کش کونہ صرف قبول کرلیتے ہیں بلکہ بالاصرارطلب کرتے ہیں' اب اس میں ایسی کیا خاص بات ہے یہ پینے والے ہی بتاسکتے ہیں۔ہمارے دفتر میں بھی قہوہ پلایا جاتا ہے'کوئی چائے کی فرمائش کربیٹھے توہماری تیوریاں چڑھ جاتی ہیں۔ اس لیے نہیں کہ چائے سے پینے والے کی صحت خراب ہوتی ہے بلکہ اس لیے کہ ہمارے خلوص کوٹھکرادیاجاتا ہے۔ ہم انتہائی محبت سے قہوہ کی پیش کش کرتے ہیں اور جواباً کہا جاتا ہے'نہیں میں تودودھ پتی پیئوں گا۔' ہمارے جی میں آتا ہے اس دودھ پتی میں مکس پتی والاپان ملاکرپلادیاجائے تاکہ جو پیا پلایا ہوسب باہرآجائے مگرکیاکیجیے کہ مہمانوں کی تواضح بھی توتہذیب کاحصہ ہے۔پرسوں کی سنیے ' راولپنڈی کے ایک اخبار کے چیف ایڈیٹرمحمد مسکین بٹ(جن کے ساتھ میں بھی کام کرچکاہوں)نے بتایا کہ خان صاحب اُن کے ہاں آئے تو عجیب تماشاہوا۔ انھوںنے خان صاحب سے پوچھاٹھنڈایاگرم؟ توجواب میں خان صاحب نے کہاآپ کھانا کھلادیں' چائے میں منظورکے ہاں پی لوں گا۔بہ قول بٹ صاحب'' دیدے پھٹنے کوآگئے'' کہاخان صاحب چائے بھی یہیں پی لیجیے گا توکہنے لگے'دوستوں کے حقوق ہوتے ہیں'اب منظورکادل تونہیں توڑاجاسکتا۔جب سلسلۂ تکلم جاری تھا توہم بٹ صاحب کے لیے قہوہ تیارکررہے تھے۔کل ایک اوردلچسپ بات ہوئی۔زوہیرعباس کوآپ جانتے ہیں؟نہیں'کوئی بات نہیں۔ میں بتاتا ہوںزوہیرعباس نوجوان صحافی ہے اورمیرے ساتھ ہوتا ہے۔یہ دلچسپ اورفکرانگیزبات اسی کے ذہن کاکرشمہ ہے۔پیشین(ظہر) کی نمازپڑھ چکنے کے بعد میں نے اُس سے کہاقہوہ بنادوتوکہنے لگا''پانی پی لیں ویسے ہی ان دنوں گرم ہوتا ہے اورقہوہ کابرابرلطف دیتا ہے۔میں نے اس کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا احتیاطاً تین کپ تیارکرناکوئی آبھی سکتا ہے۔جب برقی جگ میں ڈالا گیاپانی جوش کھانے لگا تو اُس نے ایک ٹی بیگ اُس میں ڈال دیا اور ساتھ ہی کہنے لگا''اَب زرداری قوم سے مزید کیاچاہتا ہے؟ ہم ایک ٹی بیگ سے تین کپ قہوہ بناتے ہیں۔''اگرچہ میرے لبوں پر بے اختیار مسکراہٹ پھیل چکی تھی مگربات توبہ ہرحال فکرمندی کی تھی۔
اَب ایک طرف یہ بپتا ہے اور دوسری طرف قوم کی وہ اشرافیہ ہے جواپنے کتوں اورپالتوجانوروں کے لیے روزانہ ہزاروں روپے کی خوراک 'امپورٹ' کرتے ہیں۔غیر ضروری اور لایعنی باتوں پرکروڑوں روپے خرچ کرڈالتے ہیں۔ بات یہاں تک ہوتوآدمی خاموش بھی رہے مگرجب یہی لوگ ایوانوں اورکرسیوں پربراجتے ہیں توہمارا خون نچوڑنا شروع کردیتے ہیں اورپھراسی خون کواپنی شاہ خرچیوں پراُڑاتے ہیں۔صرف ایک مثال دیکھ لیجیے کہ حالیہ بجٹ اجلاس میں شریک ہونے پرایک ایک رُکن اسمبلی کے حصے میں لاکھوں روپے آئیں گے اور مجموعی طورپراس اجلاس کے دوران ان پر6کروڑ83لاکھ33ہزار652روپے خرچ ہوں گے۔اگرکوئی رکن شریک نہیں ہوگاتب بھی وہ اپنا حصہ لینے کا حق دار ہو گا اورسب سے بڑھ کریہ کہ انھیں فائیواسٹارہوٹل کاکھانا بھی پیش کیاجاتارہے گا۔اکیس دن جاری رہنے والے اس اجلاس میں کھانے پر17لاکھ سے زایدخرچ ہوں گے۔جوتخمینہ سامنے آیا ہے'اس کے مطابق ایک رکن اسمبلی اس اجلاس کے دوران قوم کودولاکھ روپے میں پڑے گا اورسفری ودیگرالاؤنس کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے لینے کا حق دار بھی ہوگا۔ وزیروں مشیروں کو اسی تناسب سے دیکھاجاسکتا ہے۔ایوانِ صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات بہ دستورہمارے خون سے پورے کیے جائیں گے اور ان کے حصول کے لیے ہمارے کندھوں پر ٹیکس اور مہنگائی کا مزید بوجھ ڈال دیاجائے گا۔یہی وہ فرق ہے جوزوہیرعباس کوایک ٹی بیگ سے تین کپ قہوہ بنانے پرمجبورکرتاہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنی ایک سفارش میںکہاتھا کہ'' حکم رانوں'عدلیہ اور افواج کے افسران کی تنخواہوں کی مسلسل بڑھوتری خلاف انصاف ہے' اسلام اس واضح فرق کی اجازت نہیں دیتا۔'' بجاسہی مگرنقارخانے میں توتی کی کون سنتا ہے؟چیختے رہیے'چلاتے رہیے'ان ہڈحراموں نے ہماری چمڑیاں ادھیڑ کراپنے لیے جوتے بنانے کافن نہیں چھوڑنا۔یہ ہمارے جسموں سے خون نچوڑ کرہمارے چہروں کومدقوق کرکے چھوڑیں گے۔یہ ہمارے آنے والی نسلوں کوآئی ایم ایف اورورلڈبنک کاکاسہ لیس بناکے رہیں گے۔یہ اس خطۂ آباد کو بنجر و بے آب کرکے رہیں گے۔کوئی دن جاتا ہے ہمارے تمام ادارے دوسروں کے پاس گروی ہوں گے اورخدانہ کرے یہی حالات رہے توبراہِ راست حکم رانی دوسروں کی ہوگی اور ہمارے حکم رانوں کی حالت کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہوگی۔مجھے تویہ خدشہ بھی ہے کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کودہراناشروع نہ کردے اورہمارے حکم ران ایک بارپھر کہیں انگریز کے وظیفہ خوار نہ ہو جائیں۔بجٹ میں جوکچھ ظاہر ہوا اس اندازہ ہوتاہے کہ اس طبقے کوقوم کاکچھ خیال نہیں۔سرکاری ملازمین کی تعدادہے ہی کتنی ؟ اورپھرجب پنجاب یہ کہے کہ وہ اس کی بھی سکت نہیں رکھتا تووفاق کایہ اعلان بھی محض اعلان ہی ہوا۔اَب باتوں پرخوش ہولینے سے توکام بنے گا نہیں۔
آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ قانون سازاداروں کے یہ ارکان بڑے کام کے ہیں اوران پر''معمولی'' سی رقم خرچ ہوجائے توکوئی بڑی بات نہیں' لیکن میں اس کے جواب میں صرف اتنا کہوں گاکہ کبھی کوشش کرکے ان اجلاسوں کی کارروائی دیکھ لی جائے' وہاں تک پہنچ نہ ہوسکے توپھراخبارات میں ان لوگوں کے بیانات ہی پڑھ لیے جائیں'اس سے اندازہ ہوگا کہ یہ کس قدراہم مخلوق ہے اوریہ لوگ کتنے کارآمد ہیں۔ صرف راناثناء اللہ اورگورنرسلمان تاثیرکی خرافات پڑھ لی جائے' جیسے یہ تازہ ترین''گورنرپنجاب کوسستی روٹی کابخار ہوگیا ہے جواب سرسام میں تبدیل ہوچکاہے اور میرااُن کے لیے نسخہ ہے کہ وہ صبح نہارمنہ سستی روٹی اور عرق گلاب کاپیک'دوپہراورشام کوکھانے کے بعدجوکچھ''پیتے '' ہیں پیئیں اور ماڈلز کے ساتھ اٹھ کھلیوں اورڈانس پارٹیوں سے پرہیزکریں۔''اس کے جواب میں پیپلزپارٹی والوں نے جوکہا وہ بھی سُن لیجیے''راناثناء اللہ دماغی توازن کھوچکاہے'اُسے وزارت چھوڑ کر ہیرا منڈی میں سنیاسی کی دکان ڈال لینی چاہیے۔اسے کسی قابلیت نہیں بلکہ انھی نسخوں کی وجہ سے وزیر بنایا گیا ہے۔ میاں نوازشریف نے راول پنڈی'فیصل آباد'ڈیرہ غازی خان اوررحیم یارخان میں کتے پال رکھے ہیں۔جس وقت لاہور میں دہشت گردی کی کارروائی ہوئی عین اسی وقت پنجاب کی ایلیٹ فورس کی بڑی تعدادمیاں شہبازشریف کی گرل فرینڈ کی سیکورٹی پر مامورتھی اور اسے پروٹوکول دے رہی تھی۔''
صاحبو! ان دونوں بیانات کوپڑھو اور سر دھنو اور اپنے آپ پرماتم کرو۔انھی لوگوں کوہم منتخب کرکے ایوانوں تک پہنچاتے ہیں اور یہی وہ ہیں جنھیں بات کرنے کا بھی سلیقہ نہیں۔ اگرذراہوش مندی سے ان بیانات کودیکھاجائے تومعلوم ہوتا ہے کہ فریقین کا تعلق بہ ہر طور ہیرامنڈی سے ضرور ہے۔ورنہ ایک دوسرے کواورمختلف شہروں کویوںنام لے کرکوئی اس طرح نہ بک رہا ہوتا' قوم کی توہین نہ کررہا ہوتا۔ خیر! آپ قہوہ پیجئے' کیوںکہ اس سے زیادہ میں اورآپ کچھ کر بھی نہیں سکتے۔

Tuesday, May 18, 2010

شاباش!لگے رہو

شاباش!لگے رہو
چراغ بہ کف/خاورچودھری
''تیزرفتاری باعث ہلاکت ہے'' یہ جملہ بالعموم شاہراہوں پرلکھا ہوتا ہے ۔اسی مفہوم کوواضح کرنے کے لیے یہ بھی درج ہوتا ہے'' کبھی نہ پہنچنے سے دیرسے پہنچنا بہتر ہے۔'' یہ جملے منطقی نتائج کے بعد اخذ کیے گئے ہیں اورزمانے کے تجربات کانچوڑ ہیں۔اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہوسکتی۔ ہم اپنی زندگیوں میں خودتیزرفتاری سے ہونے والی ہلاکتوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ہم میں سے بیش تر ایسے ہوں گے جواسی سبب سے اپنے آپ کو معذورکربیٹھے ہوں گے اور کتنے ہی ایسے ہیں جواپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔تیزروگاڑیاں کبھی کبھار معمولی اسپیڈبریکر(رکاوٹ) سے اُچھل کردُورجاگرتی ہیں۔یہی کلیہ زندگی کے دوسرے شعبوں پر بھی لاگوہوتا ہے' یعنی جوشخص جتنی تیزی کرے گااُسے اُتنی ہی تھکن اورمشکل پیش ہوگی۔اسی باعث ہمیں اعتدال کی تعلیم دی گئی ہے۔
اقتدار کی دوڑ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے' جوشخص جتنی تیزی سے اپنے آپ کومضبوط یاپھرحاوی کرنے کی کوشش کرتا ہے 'اُسی رفتارسے واپس پلٹ جاتا ہے یاپلٹا دیاجاتاہے۔ انسانی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔خودہمارے یہاں ایسی کتنی ہی مثالیںموجود ہیں۔تیزرفتاری کاایک نقص یہ ہوتا ہے کہ اس میں انسان بہترفیصلہ کرنے کی حالت میں نہیں ہوتا۔آپ مشاہدہ کریںتواندازہ ہوگا اکثرحادثات اورواقعات ناقص فیصلے کی وجہ لیے ہوئے ہیں۔ان حالات سے ہرایک واقف ہے مگراس کے باوجود بھی لوگ چاہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے دوگام آگے ہوں۔حکم رانوں کی بھی یہی خواہش ہوتی ہے اوراُن کی یہی خواہش اُن کومنظرسے ہٹابھی دیتی ہے۔
میاں نوازشریف نے اپنے دوسرے دور میں کیاکیاتھا؟ یہی ناں کہ اپنے بھاری مینڈیٹ کے بوٹوں تلے اداروں کو کچلنے اورشخصیات کومطیع رکھنے کامظاہرہ کیا اوراس مظاہرے میں ضرورت سے زیادہ تیزرفتاری کواپنایا۔اس دوڑ میں سپریم کورٹ پرچڑھائی بھی کرڈالی۔پھربارہ اکتوبرکوحاضر سروس آرمی چیف سے اُلجھاؤکامعاملہ ہواتواپنے ساتھیوں اور بہی خواہوں سمیت اٹک قلعے میں مقیدہوئے۔ اَبھی تک نفسیاتی اوراخلاقی دباؤ میں ہیں۔پرویزمشرف کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔بارہ اکتوبرکے بعداکثرسیاسی جماعتوں اورعام لوگوں نے فوج کی آمد پرمٹھائیاں بانٹی تھیں اورایک بڑی تعدادآمرکے ساتھ ہوگئی تھی۔اگریہ جرنیل خود کوقومی خدمت اورقوم کی فلاح تک محدود رکھتا تواس میں شبہے کی گنجائش نہیں کہ قوم اس کے ساتھ ہوتی۔اس لیے کہ قوم منظرنامے پرموجود دونوں سیاسی جماعتوں کو دو دو دفعہ آزما چکی تھی اوریقینی طور پران سے نالاں تھی۔پرویزمشرف خودپرقابورکھنے میں ناکام ہوا۔ اُس نے کئی ایک مرحلوں پر تیز رفتاری کا مظاہرہ کیا۔مساجدومدارس کے خلاف کارروائیاں شروع کیں توتمام اخلاقیات اورحدودکوپامال کردیا۔لال مسجدکے سانحے میں توکسی بھی اخلاقی قدر کو سامنے نہیں رکھا گیا۔اپنی اسی دُھن میں جب ایسا ہی ایک عمل اُس نے چیف جسٹس افتخارمحمدچودھری کومعزول کرکے دہرایا تووہ یہ بھول گیا کہ اُس کے سامنے ایک سپیڈبریکربھی ہے جو اُسے سڑک سے اٹھا کرگہرے گڑھوں میں ڈال سکتا ہے۔ہم نے دیکھا کہ پھرایسا ہی ہوا۔وہی لوگ جوکبھی اُس کی طاقت میں اضافے کے باعث تھے اوراُس کے ساتھ ہم قدم تھے' اُسے چھوڑتے گئے۔مآل کاروہ تنہاہوا اوربُری طرح شکست خوردہ ہوکرملک سے بھاگ گیایابھگادیاگیا۔اَب منظرنامے پراُس کی حیثیت ایک نقطے سے زیادہ نہیں ہے۔
بدقسمتی سے یہی کھیل موجودہ حکم ران کھیل رہے ہیں۔سبک پروازی میں اَن دیکھی منزلوںکوپالینے کی خواہش میں ایسے ایسے منظرظاہرہورہے ہیں جن سے خوف اوروحشت کی بوبھی آتی ہے مگرحکومت کوایک ہی دُھن ہے' وہی دُھن جوسبک مزاجوں کوہوتی ہے۔ ساعتوں میں پوری قوم' اداروں اورشخصیات کوفتح کرنے لینے کی وہی خواہش جوماضی کے حکم رانوں کوتھی اورجس کے نتائج بھی سورج کی طرح روشن ہوکرہمارے سامنے آچکے ہیں۔خودتجربگی کا عادی یہ طبقہ قوم کومشکلوں میں ڈالنے جارہا ہے۔انجام وہی ہوگاجوپہلے ہوتاآیا ہے۔ کیوں کہ ان کے لیے جیل بھی عیش خانہ ہے اورمحل بھی۔اقتدار میں ہوتے ہیں تواپنی قوم کاخون پسینہ چوستے ہیں اوراقتدارسے باہرہوں تو پس انداز کیے گئے خزانے کونکال لاتے ہیں ۔ یورپ'امریکا اوردبئی میںخوش پوشی کی زندگی گزارتے ہیں' عذاب سے توقوم گزرتی ہے۔صرف نوے کی دہائی کی شروعات سے اَب تک کے زمانے کاجائزہ لیں تواندازہ ہوتا ہے کہ ہم کس قدراذیت ناک حالات سے گزرے ہیں اوراَب ہم دنیا کی دوڑ میں سب سے آخرہیں۔ بے ایمانی'جھوٹ'بدعنوانی اوراقرباپروری میں سب سے آگے ہیں۔مالی اوراخلاقی بحران نے پورے معاشرے کواپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اوریہ سب کیا دَھرانااہل 'ہٹ دھرم اور تیزگام چلنے والے حکم رانوں کا ہے۔
کوئی ایک مسئلہ ہوتونظراندازکیاجائے' یہاں تومسائل کاایک سلسلہ ہے'لامختتم ولامنتہیٰ۔تاہم عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی سب سے نمایاں ہے۔این آراوکے قضیے اور سوئس مقدمات کے ضمن میں توفضا پہلے سے ہی آلودہ ہے۔عدالت چاہتی ہے کہ وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے 'حکومت پہلوبچارہی ہے۔اَب وفاقی وزیرقانون کی عدالت میں طلبی تک بات پہنچ چکی ہے۔ دوسری طرف جھوٹے اورمکار سیاست دانوں کی جعل سازی ظاہرہونے پرعدالت انھیں ایوانوں سے دُوررکھناچاہتی تھی مگرسیاسی جماعتوں اورحکومت نے عدلیہ کی اس خواہش پربھی مٹی پھیردی۔پھرسزایافتہ وزیرداخلہ کی سزائیں عدالت نے بحال کیں توآن کی آن میں صدرآصف علی زرداری نے اپنے خصوصی اختیارات کواستعمال کرکے انھیں معاف کردیا۔ان ساری تیزرفتاریوںکے آگے سپیڈبریکر ہیں مگرحکومت کی نظروں سے اوجھل ہیں۔عن قریب کوئی رکاوٹ اسے مشکلوں میں ڈال دے گی اورپھرسارا دوش'' جمہوریت دشمن'' قوتوں کودیاجائے گا۔اُن تجزیہ کاروں اوردانش وروں کی رائے پرحیرت ہوتی ہے جویہ چاہتے ہیں کہ عدلیہ جمہوریت کے لیے قربانی دے۔بدقسمتی سے اس کامطلب وہ یہ نکالتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے جائزوناجائزکاموںکوتحفظ دیاجائے اورحکومت جتنی بھی مناسب ونامناسب پیش قدمی کرے عدلیہ اُس کی پشت پررہے۔اگرایساہی ہونا ہے توپھرجمہوریت کے کیامعنی ہوئے اورآزادعدلیہ کی کیاخواہش؟کس قدرافسوس ہوتا ہے جب کوئی یہ کہتا ہے کہ''عدلیہ کوجمہوریت کاکوئی فہم نہیں۔'' اگرقوم' سیاست دانوں نے عدلیہ کی بحالی مہم میں حصہ لیا ہے تواس کے محرک اوراولیں دستے میں خودعدلیہ سے وابستہ لوگ بھی شامل تھے اوراُن کی قربانیاں سب سے زیادہ ہیں۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ عدلیہ محض اُس کے تحفظ کے لیے بحال ہوئی ہے تو یہ ایک غلط اورآمرانہ خیال ہے۔سیاست دانوں کواس سے نجات حاصل کرنی چاہیے۔
ستم آمیزبات یہ ہے کہ ملک کی دوسری بڑی سیاسی جماعت کارویہ بھی دوغلا ہے۔جب اپنے آپ پربات آئی تولانگ مارچ کرڈالا اورحکومت بحال ہوئی توساری لاقانونیت اوربداخلاقی کوبھلا بیٹھی۔ایک طرف چودھری نثارعلی خان آصف علی زرداری کو''خود کش بمبار''سے تشبیہ دیتے ہیں تودوسری طرف ان کے سربراہ وزیراعظم کوہرقسم کے تعاون کی یقینی دہانی کرا دیتے ہیں۔گویا دونوں کے اپنے اپنے اہداف ہیں اورانھیں اسی طرح حاصل کیاجاسکتا ہے۔میں بلاخوف تردیدکہتاہوں کہ اس کاانجام دونوں کے لیے بھیانک ہوگا۔
حکومت کی طرف سے ایک خیال یہ ظاہرکیاجارہا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اُس کے ساتھ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی شوشہ چھوڑدیاجاتا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ہو گی۔اسی بنیادپروہ خود کومضبوط تصورکرتی ہے اور خیال کی یہی وہ کجی ہے جوراستے کی رکاوٹ نظرنہیںآنے دیتی۔نوازلیگ اوردوسری جماعتوں کی طرف سے خاموشی یا''رضامندی'' کو حکومت اپنے لیے تریاق سمجھتی ہے مگرحقیقت میں ایسا ہے نہیں۔حکومت کواندازہ اس وقت ہوگاجب اس کاایک پاؤں کنویں میں ہوگا۔عدلیہ کومجبورکرنے کی کوئی بھی کوشش خود حکومت کے نقصان کاسبب بنے گی اوراگرحکومت یہی چاہتی ہے توپھرشوق سے تیزرفتاری کاسفرجاری رکھے اوراس مہم جوئی میں لگی رہے۔



Thursday, April 29, 2010

زبانیں اورکتابیں

زبانیں اورکتابیں
(چراغ بہ کف / خاورچودھری)
زبانوں کے نام پراس دنیا میں بہت امتیازبرتاگیا اوربرتاجارہا ہے'لسانی تفاخراورتکبرکی دوڑ میں ایسے ایسے لوگ شامل ہوئے جنھیں بالعموم معتدل اورخداشناس سمجھاگیا۔ انسانی تاریخ میں ایسے ہزارہاحوالے موجود ہیں کہ انسانوں نے انسانوں کے خلاف محض زبان کے اختلاف کے باعث میدانِ حرب سجایا۔اسی بات کوقدرے تبدیلی کے ساتھ نسلی عصبیت بھی کہاجاتاہے۔قبیلوں اورگروہوں میں بٹی ہوئی انسانیت نے جب اپنے ہی جیسے دوسرے انسانوں سے نفرت کاسلسلہ شروع کیاتوتاریخ نے دیکھا کہ انسان عظمت کے مرتبہ سے گر کر زمین بوس ہوگیا۔ معلوم حقائق وشواہدسے یہ سمجھاجاسکتاہے کہ دراصل ایسے لوگوںکے پیشِ نظر صرف اورصرف اپنی ذات تھی اوروہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے گروہ بندی کے اسیر ہوئے۔عرب وعجم کے کئی ایک قصے اس حوالے سے خاصے مشہور ہیں۔پھرمیرے رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اس تفریق کو یک سرمٹا ڈالا اورانسانوں میں برابری کی بنیاد قائم کردی۔ رنگ ونسل اورزبان وبیان کی عظمت کی جگہ صالح کرداروعمل نے لے لی۔
زبان وسیلہ ہے انسانی خواہشات اورجذبات کے پہنچانے کا' پھرہرایک خطے کی مخصوص فضا میں اس کااپناذائقہ اورمٹھاس ہے۔وہ بولیاں جوہمارے لیے بہت اجنبی اور بعض اوقات تفنن طبع کا باعث بنتی ہیں 'بولنے والوں کے لیے انتہائی اہمیت اورقدرکی حامل ہوتی ہیں۔آسان سی بات ہے کہ اگراہلِ عرب اپنی زبان پرفخرکرتے ہیں تواُن کاحق ہے مگرچولستان کے ریگ زاروں میں بسنے والوںکی بولی بھی کسی طرح لائق نفرین نہیں ہوسکتی۔ہاں البتہ بولیوں کے مزاج میںپائی جانے والی کثافت یالطافت توجہ طلب ہوسکتی ہے۔یہی حال دوسری زبانوں کا ہے۔اس خطے میں جہاں ہم رہ رہے ہیں صدیوں تک یہاں کی مقامی بولیوں نے را ج کیا' جب بیرونی حملہ آوریہاں آئے توانھوں نے اپنی مزاج آشنا زبان کو یہاں متعارف کروایا۔ ولندیزیوں' انگریزوں' مسلمانوں' تاتاریوں کی بولیاں ماحول میں اپنا اثرچھوڑنے لگیں۔اس طرح ایک اورثقافت سامنے آئی۔اس آمیزش سے جہاں خوش کن پہلو سامنے آیا وہاں ایک بدصورتی یہ ہوئی کہ بہت سی زبانیں اپنے اصلی صوت اورآہنگ سے دورہوتی گئیں' بعض توبالکل معدوم ہونے لگیں اور ان کی کوکھ میں سے ایک نئی بولی جنم لینے لگی۔
ترکوںکی شان وشوکت کے قصے ان کی اپنی زبان میں عام تھے 'توعربوں کے اُن کی زبان میں۔ہندوستانیوں کی داستانیں ان کی زبان میں مرقوم تھیں۔دنیاجب سمٹنے سکڑنے لگی توزبانیں اوربولیاں بھی ا س عمل سے متاثر ہونے لگیں۔ تمام ترخالص بولیاں نئی زبانوں کی آمیزش سے نیارنگ ڈھنگ اپنانے لگیں۔یوں ایک خاص انداز سے کچھ بولیاں متروک بھی ہوئیں اورکچھ کو جان بوجھ کرنظرانداز کیاجانے لگا۔موجودہ تناظر میں ہمیں صاف دکھائی دے رہا ہے کہ ایک خاص حکمت سے اہلِ مغرب نے اپنی زبان انگریزی کو نہ صرف دنیا میں عام کیا بلکہ ہم ایسے کئی ملکوںکے لیے اسے مجبوری بنادیا گیا۔ سائنس اورجدیدعلوم کے حصول کواس سے مشروط کرکے ایک طرح سے رکاوٹ کھڑی کردی گئی(اگرچہ بعض قوموں نے اپنی ہی زبانوں کی بنیادپرترقی حاصل کرکے دنیا کوحیرت میں مبتلابھی کیا)۔اس جدوجہد کے پیچھے صرف برتری کی خواہش ہی کارفرمانہیں تھی بلکہ دنیا کواپنے زیرتسلط لانا تھا اورسب سے اہم بات یہ کہ لسانی اورتہذیبی اعتبار سے دوسروں کو متاثر کرکے انھیں ان کے ماضی سے ہٹاناتھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطے میں اس قوت کوپوری طرح کام یابی حاصل ہوئی ہے۔ آج ہمارے یہاں''انگلش میڈیم'' کالیبل لگاکرہرکوئی خوشی محسوس کرتا ہے اورفخرسے بتاتا ہے۔اسی طرح اگرکوئی انگریزی زبان میں اپنا مدعابیان کرنے کی قدرت رکھتا ہے تو وہ یہ جتانے کی کوشش کرتا ہے کہ اُس کے سامنے والے سبھی جاہل ہیں۔ ایسا ہوا ہے' جب فرنگیوں نے فارسی زبان کی جگہ دوسری زبانوں کو اہمیت دی تووہ تمام صاحبانِ علم دیوار سے لگا دیے گئے جوکبھی اپنے اپنے میدانوں میں کام یاب تھے' یہ جملہ تواَب تک کانوں میں گونجتا ہے'' پڑھوفارسی اور بیچوتیل''۔یہ سب ایک مخصوص ذہنیت کی کارستانی ہے۔آج بھی وہ ذہنیت کام کررہی ہے۔ آج پہاڑوں'صحراؤںاوردوسرے علاقوں سے ہجرت کرکے آنے والوں کودیکھیے تواندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی زبانوں پرنادم ہیں۔ دوسروں کے سامنے بولتے ہوئے نہ صرف ہچکچاتے ہیں بلکہ شرم محسو س کرتے ہیں' یہی وہ مرحلہ ہوتا ہے جب بولیاں اورزبانیں اپنا وجوداورشناخت ختم کردیتی ہیں۔
اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ میں کہاگیا ہے کہ دنیا کہ ایک سوننانوے زبانیںمعدومی کے قریب ہیں اور ان میں سے بعض زبانوں کوبولنے والوں کی تعداد چند افراد پر مشتمل ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ المیے سے کم نہیں ہے۔مادری زبان کی اپنی اہمیت اورمٹھاس ہوتی ہے۔سرائیکی خاندان میں پیداہونے والے بچے کوانگریزی اورعربی ضرور سکھائی جائے مگر اُسے سرائیکی سے ہر گزمحروم نہ کیاجائے۔ جوزبان اُسے ورثہ میں ملتی ہے اُسے بولنا اوراستعمال کرنا اُس کا حق ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جتنا آسان ابلاغ مادری زبان میں ہوتا ہے کسی دوسری زبان میں نہیں ہوسکتا۔
کم وبیش یہی صورت حال کتابوں کے سلسلے میں بھی درپیش ہے۔ سہل پسندی کے باعث کتابوں سے ہماری توجہ ہٹتی جارہی ہے۔علم کے خزینے ردی کے ڈھیر بن رہے ہیں اور نئے زمانے کے بیش تر لوگ اپنے اباؤاجدادکے چھوڑے ہوئے ان خزانوں کوگھروں سے فٹ پاتھوں پر منتقل کررہے ہیں۔ میرے لیے یہ اطلاع بہت درد ناک تھی کہ خیبر پختون خوا کے ایک نام ور ادیب جب دنیا سے رخصت ہوئے توان کے اہل خانہ نے ان کاکتابی اثاثہ مزدوروںپرلاد کرفٹ پاتھوں پرمنتقل کیا' یہی نہیں بلکہ اپنے زمانے کے اُس اہم شخص کی تعلیمی اسناد بھی نہ سنبھال سکے۔ابھی چند روز پہلے ہمارے ایک ہم محفل نے انکشاف کیا کہ وہ بھی اس ''کارِ خیر'' سے گزرے ہیں اوراپنے والد مرحوم کی چھوڑی ہوئی کتابیں تنوروں میں جلا کر اُن سے ایندھن کا کام لیاہے۔جب بالعموم صورت حال یہ ہوتوپھریہ شکوہ نامناسب ہے کہ ہم نے اس دنیا میں اپنا وہ مقام نہیں بناپایاجوہمارے اجداد سے منسوب ہے۔
صاف سی بات ہے جب اپنی مٹی اوربولی کواہمیت نہیں دی جائے گی اوران کے مقابلے میں دوسروں کی پیش کردہ زبان کوفخر کے ساتھ اپنایاجائے گاتونتیجہ یہی نکلنا چاہیے جو اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ ''ہیری پوٹر'' تخلیق کرنے والی دُنیا کی امیرترین مصنفہ اس لیے نہیں بنی کہ اُس نے کوئی اَن ہوناکام کردیا ہے بلکہ وہ اس مقام تک اس لیے پہنچی ہے کہ اُس کا معاشرہ نہ صرف اپنی زبان پرفخر کرتا ہے بلکہ وہ اپنے لکھنے والوں کا قدردان بھی ہے۔ ہمارے یہاں معروف مصنفین کی کتابیں بھی ایک ہزار سے زاید کی تعداد میں شائع نہیں ہوتیں اور اپنا سفر سال ہاسال جاری رکھتی ہیں۔ ہزار میں سے دس افراد ہوں گے جوکتاب خریدکرپڑھتے ہوں گے ورنہ یہ رجحان ہی نہیں۔ستم بالائے ستم یہ ہے کہ لکھنے پڑھنے سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی کتاب خریدکرپڑھنے کوعادت نہیں بناتے اورجن لوگوں کوتحفةً کتابیں ملتی ہیں وہ ان کے ہاتھوں سے ہوکرفٹ پاتھوں پرمقام بنا لیتی ہیں۔ یہ تسلیم شدہ بات ہے کہ وہی قومیں زوال آشنا ہوتی ہیں جواپنی اصل سے ہٹتی ہیں۔ہماری اصل علم ہے اورعلم زبان اورکتاب کے ذریعے سے راستہ بناتاہے۔